Tuesday 7 August 2012

Killing Willing In Pakistan By taliban

August 07, 2012 In: پاکستان
صیح کہا جاتا ہے کہ دُنیا میں سب سے زیادہ ظلم عدل کے نام پر عدالتوں نے کیا، جب کسی معاشرے میں عدل، ظلم پر اُتر آئے تو معاشرے میں موجود لوگوں میں بغاوت، احساس محرومی اور غصے کے علاوہ کچھ نہیں پایا جاتا۔
ٴ
کچھ ایسا ہی حال میرے پاکستان کا ہے۔ بڑی کوششوں اور آمر کے جوتے کھانے کے بعد دل کو سکون ملا تھا کہ اب میرے ملک کی عدلیہ آزاد ہوچکی ہے۔ مگر میں غلط تھا، مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس ملک کی عدلیہ نہیں بلکہ صرف عدلیہ کا سربراہ آزاد ہوا ہے۔ میں بہت بڑا بیوقوف تھا جو اُن لوگوں کی باتوں میں آگیا جو کہتے تھے عدلیہ کی آزادی کے بعد “ریاست ماں جیسی ہوگی” میں شاید بھول گیا تھا جو لوگ یہ نعرے لگارہے ہیں انھوں نے پوری زندگی تو کچھ کیا نہیں تو اب کیا کرینگے؟ عدلیہ کی آزادی کے بعد ریاست ماں جیسی تو بہت دور کی بات سوتیلی ماں جسی بھی نہیں رہی!
شاید کے چیف جسٹس کے خلاف بولنے پر دوبارہ ضیاالحق گروپ کی جانب سے شیعہ کلنگ پر پابندی لگادی جائے مگر میں کیا کرو کہ گزشتہ 11 مہینوں میں 346شیعہ مسلمانوں کی لاشیں روزانہ میری آنکھوں کے سامنے اپنی مظلومیت کا نوحہ کرتی ہیں، اور مجھ سے پوچھتی ہے کہ “کیا تھمارا کام صرف خبر بنانا اور ویڈیو ایڈیٹ کردینا ہیں؟”
ایک سال 5 مہینوں میں اس کان نے مسلسل شہادتوں کی اطلاع سُنی اور ان ہاتھوں نے کئی سو شہادتوں کی خبریں بنائی!مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اتنا دکھ کسی شہادت کی اطلاع پر نہیں ہوتا جتنا دکھ اس وقت ہوتا ہے جب معلوم ہوتا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری کی کورٹ نے فلاح فلاح شیعہ قاتل دہشتگرد کو آزاد کردیا۔
ہاں بلکل ! شہادت تو ہماری میراث ہے مگر کیا ظلم پر خاموش رہنا ہماری میراث ہے؟
پچھلے 11 مہینوں میں شیعہ نسل کشی کا شکار ہونے والے 346 شیعہ مسلمانوں کے قاتل آج بھی آزاد ہیں۔ اس آزاد عدلیہ نے آج تک اُن قاتلوں میں سے کسی ایک کو بھی سزا نہیں سُنائی بلکہ اُلٹا اُن دہشتگردوں کا آزاد کیا جنہوں نے کھلم کھلا سو سو شیعہ مسلمانوں کے قتل کا اعتراف کیا، کئی سو طالبان دہشتگردوں کو رہا کردیا گیا جنہیں فوج نے گرفتار کیا تھا، ملک اسحاق جیسے خطرناک دہشتگردوں کو رہائی دینے والی اس آزاد عدلیہ کا کردار ملک کے مستقبل کے لیے خطرناک ہے یا پھرخوشحال یہ تو تاریخ فیصلہ کریں گی۔
انصاف کے نام پر نا انصافی کی داستان صرف یہی ختم نہیں ہوجاتی بلکہ جیلوں میں موجود ہزاروں شیعہ اسیران کے کیسز پر محترم چیف جسٹس افتخار چوہدری کی “آزاد عدالت” خاموش نظر آتی ہے۔ بدنام زمانہ دہشتگرد ملک اسحاق کی رہائی “محترم آزاد عدلیہ” کے لیے ممکن ہے مگر 18 سال سے گرفتار اسحاق کاظمی کی درخواست پر “ماں جیسی محبت کرنے والی آزاد عدلیہ” تعصب کا شکار نظر آتی ہے، 16 سال سے گرفتار فرزند ملت تشیعُ غلام رضا شاہ نقوی کو آج تک پیشی کی تاریخ نا مل سکی، کیا یہ کھلم کھلا “حقوق مساوات کی علمبردار عدلیہ” نہیں؟
قابل محترم چیف جسٹس افتخار چوہدری کی آزاد عدلیہ نے 1700 سو موٹو لیے جن میں شراب کی دو بوتلیں، سموسہ، شکر،وحیدہ شاہ کا تھپڑ، مبینہ ملزم ارسلان افتخار،مختارا مائی، چلاس میں خواتین کا رقص، اور وغیرہ وغیرہ،
مگر افسوس ان سوموٹو میں کوئٹہ مییں عید کے دن نشانہ بننے والے معصوم نمازی نہیں، سانحہ کوہستان میں شہید ہونے والی خواتین نہیں، پارہ چنارمیں زبح ہونے والے معصوم شیعہ مومنین نہیں اور نا ہی کراچی میں روزنہ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے نہتے شیعہ مسلمان،
 چیف جسٹس افتخار چوہدری کو سوچنا چاہیے کہ کوئٹہ میں بسوں سے اتار کر نشانہ بننے والے، گلگت میں چلاس کے مقام پر بے رحمی سے شہید ہونے والے، کراچی میں روزانہ سپاہ صحابہ کے دہشتگردوں کی گولیوں کا نشانہ بننے والے اور پارہ چنار میں زبح ہونے والے شہیدوں کی قوم اتنی بیوقوف نہیں کہ ان تمام سازشوں کا سمجھ نہیں پائے،دوسرے ضیاالحق کاانجام وہی ہوگا جو پہلے ضیاالحق کا ہوا تھا۔
ہزاروں شیعہ مسلمانوں کے لہو سے لکھی گئی یہ تحریر خواہ کسی کو توہین عدالت لگے مگر یہ شکوہ ان شہیددوں کا ہے جنہیں بے رحمی سے فرقے کی بنیاد پر قتل کردیا گیا،
آنے والا دور ان تمام باتوں کا فیصلہ کریں گا کہ یہ تحریر توہین عدالت ہے یا پھر ہزاروں شیعہ مسلمانوں کا خراج!!

No comments: